کیا حج صرف دین اسلام سے مخصوص ہے؟

حوزہ/ حج ایک ایسا دینی عمل ہے جس کی جڑیں قدیم ادوار تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مختلف مذاہب کا تقابلی مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی اس جیسے عبادات اور رسومات پائی جاتی تھیں۔ یہ مضمون مختلف مذاہب میں حج کے تاریخی اور تقابلی جائزے پر مبنی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I کیا حج ایک ایسا مذہبی فریضہ ہے جو صرف اسلام کے لیے مخصوص ہے؟ یا اس کی روحانی بنیادیں پچھلے آسمانی ادیان میں بھی موجود رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب اس تفصیلی جائزے میں دیا گیا ہے۔

حج، ادیانِ الٰہی کا مشترک فریضہ

اسلام میں حج ایک عظیم عبادت ہے، لیکن تاریخ اور دینی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حج صرف اسلام کا اختصاصی عمل نہیں، بلکہ یہ عبادت دیگر آسمانی ادیان اور ان کے انبیاء کی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہے۔

حج اور عیسائیت

عیسائیت میں اگرچہ موجودہ شکل میں حج کا تصور وہ نہیں جو اسلام میں ہے، لیکن ان کے ہاں بھی مخصوص مقدس مقامات کے گرد طواف، قربانی، نذریں، گریہ و زاری اور دعا کے مراسم پائے جاتے ہیں۔ کچھ عیسائی حضرات دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہو کر راہبانہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں اور حضرت مریم (ع) کو نمونہ عمل بناتے ہیں۔ بعض جگہوں پر عیسیٰ علیہ السلام کی عبادت گاہیں، جائے ولادت یا جائے صلیب کو مقدس جان کر وہاں عبادات انجام دیتے ہیں۔

عیسائی مستشرق "ونسنک" کے مطابق لفظ "حج" عربی میں "قصد" کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ معنیٰ عیسائی عبادات میں بھی موجود ہے، جو کسی مقدس مقام کی طرف جانے اور وہاں مناسک انجام دینے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔

آیا حضرت عیسیٰؑ نے حج کیا؟

روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام، جو کہ ایک اولوالعزم پیغمبر تھے، نے ندائے حضرت ابراہیمؑ پر لبیک کہا اور خانہ کعبہ کا حج ادا کیا۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے! یقیناً ابن مریم (حضرت عیسیٰؑ) وادی روحاء سے گزریں گے اور حج یا عمرہ یا دونوں کی نیت سے لبیک کہیں گے"۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:

"عیسیٰؑ بن مریم وادی روحاء سے گزرے، اور لبیک کہتے ہوئے فرمایا: لبیک! میں تیرا بندہ اور تیری باندی کا بیٹا ہوں"۔

حج اور حضرت موسیٰؑ

حضرت موسیٰؑ کا حج بھی دینی روایات میں موجود ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے سفر کے دوران ایک وادی (ازرق) میں فرمایا:

"گویا میں موسیٰؑ کو دیکھ رہا ہوں کہ لمبے بالوں کے ساتھ، کانوں میں انگلیاں ڈال کر لبیک کہہ رہے ہیں اور حج کے ارادے سے گزر رہے ہیں"۔

امام محمد باقرؑ سے روایت ہے کہ:

"موسیٰؑ 70 انبیاء کے ساتھ وادی روحاء سے گزرے اور لبیک کہا"۔

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ موسیٰؑ مصر سے احرام باندھ کر چلے، دو سفید لباس زیب تن کیے اور لبیک کہا، ان کے ساتھ پہاڑ بھی لبیک کہتے تھے۔

یہودی شریعت میں حج کا تصور

یہودی مذہب میں بھی "حج" کی طرز کے مراسم موجود رہے ہیں، اگرچہ ان کی صورت اور سمت مختلف رہی ہے۔ قدیم سامی اقوام معبدوں، مزارات اور مخصوص جگہوں کی طرف "قصد" کرتے تھے۔ تورات کی کتاب "سفر خروج" میں آیا ہے کہ:

"سال میں تین بار میرے لیے عید مناؤ" اور

"ہر سال تین مرتبہ تمام مرد خدای اسرائیل کے حضور آئیں"۔

یہودیوں کی تین اہم عیدیں جن کے موقع پر حج کا تصور ملتا ہے:

1. عید فِصح (پندرہ نیسان) – بہار میں منائی جاتی ہے۔

2. عید حصاد یا شبوعوت – موسم گرما کے آغاز میں۔

3. عید ظلل (سرکوت) – موسم خزاں میں منائی جاتی ہے۔

یہ مراسم عام طور پر صدقات، عبادات اور اجتماعی اجتماع پر مشتمل ہوتے ہیں، اگرچہ حج کا مخصوص اور واحد مرکز ان کے ہاں موجود نہیں بلکہ مختلف "بیوت" یا مقدس مقامات کو مرکز قرار دیتے ہیں۔

حضرت موسیٰؑ کا حج

یہ جاننا ضروری اور مفید ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کس طرح حج ادا کرتے تھے۔

جب ہم سنتِ شریفہ میں وارد روایات اور احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہؑ نے بھی اپنے سے پہلے انبیاء کی طرح بیت اللہ کی طرف حج کیا، طواف کیا اور تلبیہ (لبّیک) پڑھا، جیسے ان کے آباؤ اجداد، جو اللہ کے پیغام رساں اور آسمانی احکام کے فرمانبردار تھے، حج کیا کرتے تھے۔

اس حقیقت پر "انبیاء کے حج" سے متعلق روایات نے خاص طور پر زور دیا ہے۔ یہاں چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:

حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھے اور مکہ و مدینہ کے درمیان سفر کر رہے تھے کہ ایک وادی میں پہنچے۔ رسول اللہؐ نے پوچھا: اس وادی کا کیا نام ہے؟ عرض کیا گیا: ’وادی ازرق‘۔ آپؐ نے فرمایا: گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ لمبے بالوں والے تھے، اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالے ہوئے تھے اور تلبیہ پڑھتے ہوئے اسی وادی سے گزر رہے تھے، اور مکہ مکرمہ و کعبہ کی جانب حج کے لیے جا رہے تھے۔"

اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

"حضرت موسیٰ بن عمرانؑ ستر انبیاء کے ہمراہ حج کے ارادے سے ’روحاء‘ کے مقام سے گزرے، اور وہ فرما رہے تھے: ’لبّیک عبدُک ابنُ عبدَیک‘ (حاضر ہوں، اے میرے رب! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں)۔"

اسی طرح امام باقرؑ سے یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے:

"حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے شہر رَملہ سے حالتِ احرام میں نکلے، اور ’صفائح الروحاء‘ کے مقام سے احرام کی حالت میں گزرے۔ وہ ایک اونٹ پر سوار تھے، جس کی مہار کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی تھی، ان کے جسم پر دو سفید ’قطوانی‘ کپڑے تھے، اور وہ تلبیہ پڑھتے جا رہے تھے۔ پہاڑ بھی ان کے ساتھ لبّیک کہتے تھے۔"

نیز امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

"حضرت موسیٰؑ ’صفائح الروحاء‘ کے مقام سے گزرے۔ وہ ایک سرخ اونٹ پر سوار تھے، جس کی مہار کھجور کے پتوں سے بنی تھی، ان کے جسم پر دو سفید اور مختصر قطوانی چادریں تھیں، اور وہ یہ کہتے جا رہے تھے: ’لبّیک یا کریم، لبّیک‘ (حاضر ہوں، اے کریم پروردگار، حاضر ہوں)۔"

تاریخی شواہد، قرآنی اشارات اور اسلامی روایات یہ واضح کرتی ہیں کہ حج ایک ایسی الٰہی عبادت ہے جو صرف اسلام تک محدود نہیں، بلکہ تمام آسمانی ادیان کے نبیوں اور ان کے ماننے والوں میں بھی کسی نہ کسی شکل میں رائج رہی ہے۔ چاہے وہ حضرت ابراہیمؑ کا لبیک ہو، حضرت موسیٰؑ کا حج بیت‌اللہ یا حضرت عیسیٰؑ کا لبیک گویان کعبہ کی طرف روانہ ہونا—یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ حج، ایک عالمی اور توحیدی ندائے ابراہیمی ہے، جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو کر ہر مومن کے دل کی آواز بن چکی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha